پاکستان میں ذہنی امراض کو آج بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہاں زیادہ تر افراد اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں یا پھر اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں تجربہ کار مشیران کی مانگ بہت زیادہ ہے جو اپنے محتاط مشاہدے سے اِن علامات کی نشاندہی کرسکیں۔ پاکستانی – جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) کے مشیر فیصل شبیر کہتے ہیں’اس وقت ذہنی صحت پر پیسے خرچ کرنا اور بات چیت شروع کرنا پہلے سے کئی زیادہ اہم ہے۔ ذہنی مسائل کے شکار کسی بھی شخص کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘“
فیصل شبیر مینٹل ہیلتھ اینڈ سائیکولوجیکل سروس گروپ (ایم ایچ پی ایس ایس) کے رکن ہیں اور مستقبل اور معاشرے سے ہم آہنگ ہونے کے حوالے سے مشاورت فراہم کرتے ہیں۔ فیصل شبیر جانتے ہیں کہ نقل مکانی کے وقت جن افراد کا اپنے گھر والوں سے رابطہ کٹ جاتا ہے وہ ذہنی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں کے لیے ان ممالک میں زبان کی رکاوٹ کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشرتی تفریق بھی معاشرے سے جڑنے میں مشکل پیدا کرسکتی ہے۔ اِن میں سے چند ہی اتنے حوصلہ مند ہوتے ہیں کہ ماہر نفسیات سے پیشہ وارانہ مشاورت (سیشنز) لے سکیں۔