Skip to main content
مینیو

موٹرسائیکل مکینک کی تربیت کے ساتھ ایک نیا آغاز

شرکا سیکھ رہے ہیں کہ موٹرسائیکل کیسے ٹھیک کرتے ہیں۔

موٹرسائیکل مکینک کی تربیت کے ساتھ ایک نیا آغاز

نیا کام سیکھنا یا اپنا کاروبار شروع کرنا ان چند کاموں میں سے ایک ہے جس کا بہت لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستانی – جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں مدد کرتا ہے۔ یہ اپنے شراکت دار اداروں کے ساتھ مل کر دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ تربیت بھی فراہم کرتا ہے۔ اِن میں سے ایک موٹرسائیکل مکینک کا تربیتی کورس بھی ہے۔ ایک جھلک پردے کے پیچھے کی۔

اپنی ورکشاپ کا خواب

سلیمان لاہور کے ضلع شیخوپورہ کی سڑک پر قائم ایک جدید تر دکھائی دینے والی ورکشاپ میں موٹرسائیکل کے خراب انجن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ کاربیٹر کے ہر ایک پرزے کو اچھی طرح دھو کر صاف کررہے ہیں۔ وہ اس وقت موٹرسائیکل مکینک کی تربیت حاصل کررہے ہیں جو انہیں مستقبل قریب میں اپنی ورکشاپ کھولنے کے قابل بنائے گی۔ سلیمان دو سال قبل ہی پاکستان واپس آئے اور انہوں نے موٹرسائیکل کے پرزوں(سامان) کی دکان کھولی ۔

یہ بہت سارے حصوں سے مل کر بنا ہے: شرکا خراب انجن پر کام کررہے ہیں۔

لیکن انہیں یہ ایک ہفتے بعد ہی کورونا کی وبا کی وجہ سے دکان بند کرنا پڑی۔ وہ 15 مہینوں تک کرایہ دیتے رہے لیکن آخرکار انہیں وہ دکان بند کرنا پڑی۔ سلیمان اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان تھے لیکن پھر انہیں سوشل میڈیا سے پاکستانی – جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر(پی جی ایف آر سی) کی جانب سے کرائے جانے والے موٹرسائیکل مکینک کے تربیتی کورس کا علم ہوا۔ قسمت نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سلیمان کہتے ہیں’میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ میں اپنے ہنر کو بہتر بناؤں گا۔ میں اپنی نئی ورکشاپ کھولنا چاہتا ہوں ۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد جتنا جلدی ممکن ہو میں اپنے کاروباری منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہوں۔‘ انہوں نے فوری طور پر پی جی ایف آر سی سے رابطہ کیا اور تربیتی کورس کے لیے اپنا اندراج کرایا۔

 

شرائط، مواد اور طریقہ کار

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ موٹرسائیکل مکینک بننا پاکستان میں سب سے زیادہ مطلوب(جن کی مانگ زیادہ ہو) پیشوں میں سے ایک ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس پیشے میں کام کرنے والے چند ہی افراد ایسے ہیں جنہوں نے درست تربیت حاصل کی ہو۔ موٹرسائیکل مکینک بننے کے تربیتی کورس کا مطمع نظر واپس لوٹنے والے اور مقامی افراد دونوں ہی ہیں۔ پی جی ایف آر سی نے کورس کےلیے انفینٹی اسکول آف انجینئرنگ سے رابطہ کیا۔ اس کا قیام 2015 میں عمل میں آیا تھا جس کے بعد سے یہ تقریباً 6500 افراد کو تربیت فراہم کرچکے ہیں۔اس کا مقصد ایسے لوگوں کو تربیت دینا ہے جو جلدی اور بغیر کسی مشکل کے کام حاصل کرسکیں۔ تربیتی کورس میں سکھائے والے علم میں صنعت کے رجحانات اور تکنیکی ترقیوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔


موٹرسائیکل مکینک کی تربیت 45 دن کی ہوتی ہے اور اس میں عملی پہلوؤں پر توجہ دی جاتی ہے اس کے ساتھ شرکا کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ کاروبار کیسے چلاتے ہیں۔ کورس پڑھانے والے وہ انجینئرز ہوتے ہیں جو انڈسٹری سے منسلک ہوں۔ شرکا کورس مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں مکمل اعتماد کے ساتھ داخل ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔ کورس کا مقصد شرکا کو تکنیکی تصورات اور کام کے طریقوں کے ساتھ ساتھ مارکیٹنگ (تشہیر) کی مہارت کے ساتھ کاروباری علم سکھانا ہے۔ کامیابی کے ساتھ تربیت مکمل کرنے والوں کو پی جی ایف آر سی کی جانب سے مکمل اوزار فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ کام کا آغاز کرسکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ورکشاپ کے لیے انہیں استعمال کرسکتے ہیں۔

عملی اسباق ایک بڑی ورکشاپ میں دیے جاتے ہیں۔

خوابوں کا حقیقی مواقعوں میں ڈھلنا

تربیت کے دوران عملی سبق (کام) ایک بڑی ورکشاپ میں دیا جاتا ہے جہاں جدید اوزار ہوتے ہیں اور وہاں بہت سی موٹرسائیکلز ہوتی ہیں جن پر طلبہ خود کام کرسکتے ہیں۔ پیچھے کی جانب ایک لیکچر ہال بھی ہے۔ سلیمان پہلی صف میں بیٹھے ہیں وہ 2019 میں پاکستان واپس آئے ہیں۔

تربیت حاصل کرنے والوں میں سے ایک اسحاق بھی ہیں۔ انہیں اپنے رشتہ دار سے تربیتی کورس کا علم ہوا۔ وہ 2015 میں قطر منتقل ہوئے لیکن صرف 5 ماہ بعد ہی صحت کے خدشات کے باعث اُنہیں پاکستان واپس آنا پڑا۔ اُس کے بعد سے وہ ایک کپڑے کی دکان پر کام کررہے تھے لیکن انہیں ہمیشہ سے مکینک بننے کا شوق تھا۔ یہ تربیتی کورس ایک بہترین موقع تھا۔ تکنیکی صلاحیتوں اور کاروباری تربیت کے ملاپ نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد کی کہ کاروبار کیسے کھڑا کرتے ہیں۔ میرا منصوبہ ہے کہ اِن اوزاروں کا استعمال کرتے ہوئے ایک موبائل(چلتی پھرتی)موٹرسائیکل ورکشاپ چلاؤں۔ اسحاق نے سمجھانے کے انداز میں بتایا کہ اس طرح وہ صارف کے پاس جاکر وہیں بائیک ٹھیک کرسکتے ہیں۔

ورژن: 01/2022

تکنیکی صلاحیتوں اور کاروباری تربیت کے ملاپ نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد کی کہ کاروبار کیسے کھڑا کرتے ہیں۔‘
اسحاق

ملکوں کے تجربات