Skip to main content
مینیو

تیونس کا شہد

خالد سی ٹی اے میں مشاورت کرتے ہوئے

تیونس کا شہد

سلام، میں خالد ہوں۔ میں 34 برس کا ہوں اور تیونس سے آیا ہوں۔ میرے خاندان کا پھلوں اور سبزیوں کا کاروبار ہے جہاں میں نے طویل عرصے تک کام کیا۔ یورپ میں رہنا میرا ہمیشہ سے خواب تھا ۔ 2008میں جب میں 24سال کا تھا میں نے یورپ کیلیے رخت سفر باندھا۔ آغاز میں، میں نے ایک سال اٹلی میں گزارا۔ جس کے بعد میں بذریعہ فرانس اور بیلجیئم جرمنی پہنچا ۔

میرا وقت بہت اچھا رہا۔ میں ایک جرمن خاتون کے پیار میں گرفتار ہوا اور پھر پانچ سال بعد 2014 میں ہم نے شادی کرلی۔میں نے جرمن زبان سیکھی لیکن نوکری کی تلاش انتہائی مشکل کام تھا۔ اور 2017میں ہماری شادی بھی ناکام ہوگئی۔طلاق کی وجہ سے میں اپنےرہائشی اجازت نامے سے ہاتھ دھو بیٹھااورمجھے جرمنی چھوڑنا پڑا۔

تقریباً10سال بعد میں وہیں واپس پہنچ گیا جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ زیادہ تر چیزیں معمول کے مطابق تھیں لیکن کچھ چیزیں نئی بھی تھیں: جیسے کہ ’جرمن تیونیشین سینٹر فار جابز، مائیگریشن اینڈ ری اینٹیگریشن‘ مختصر سی ٹی اے۔سینٹر کے اراکین مجھ جیسے لوگوں کو مشورے فراہم کرتے ہیں جو تیونس میں نئی شروعات کے خواہشمند ہوتے ہیں۔اُن کے پاس میرے لیے ایک منفرد خیال تھا،میں بی کیپر بن سکتا ہوں۔

اور اس وقت میں یہی کر رہا ہوں، بی کیپر بننے کیلیے تربیت حاصل کررہا ہوں۔بالکل میں اپنے اہلخانہ کے ساتھ ہوں اُن کے کاروبار میں مدد کررہاہوں۔ میں اپنے ٹرک پر مصنوعات پہنچاتاہوں۔ مستقبل میں میں اپنی مصنوعات کے ساتھ بھی یہی کرنا چاہتا ہوں: میرا مقصد ایک خودمختار شہد فروش بننا اور مقامی سپر مارکیٹس اور سبزی فروشوں کو اپنا شہد فراہم کرنا ہے۔

Stand: 01/2019

میں ایک خودمختار شہد فروش بننا چاہتا ہوں اور مقامی سپر مارکیٹ اور سبزی فروشوں کو اپنا شہد فراہم کرنا چاہتا ہوں۔‘
خالد، تیونس

ملکوں کے تجربات