Skip to main content
مینیو

اپنے آپ کو جانچنا

اُسامہ آن لائن مشورہ فراہم کررہے ہیں

اپنے آپ کو جانچنا

زیادہ تراُسامہ کےدن کا آغاز تیونس کے شہر سفیکس کے صدی منصور کے ساحل پرجانے سے ہوتا ہے۔ وہ سمندر کے اِس نظارے کا لطف اٹھاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ اِنہیں دکھ بھی دیتا ہے۔ کیونکہ اِن کا آبائی شہر غیر قانونی ہجرت کا مرکزبن چکا ہے۔نئے مواقعوں کی تلاش میں یورپ جانے کے خواہشمندسمندری سفر کیلیے یہیں سے آغاز کرتے ہیں۔اسامہ کہتے ہیں کہ" اِنہیں بالکل بھی اندازہ نہیں کہ وہاں کیا چیز اِن کی منتظر ہے۔ اور وہ اس بارے میں بہت کم جانتے ہیں کہ تیونس میں اُنہیں کس قسم کے مواقع موجود ہیں۔" وہ جرمنی- تیونیشین سینٹر فار جابز ،مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن(سی ٹی اے) میں مشیر ہیں اور حالات کو بدلنے میں مدد کررہے ہیں۔ اسامہ سی ٹی اے میں کام کرتے ہیں اور تربیت،روزگار،نئے کاروبار سمیت دیگرمعاملات پر مشورے فراہم کرتے ہیں اور مشورے کیلیے آنے والوں کے ساتھ مل کر اُن مسائل کا حل نکالتے ہیں۔سفیکس میں مشاورتی مرکز فروری 2020 میں شروع کیا گیا،اس سے پہلے دارالحکومت تیونس میں بھی مرکز کا افتتاح کیا جاچکا ہے۔

یہ دونوں مراکز ڈوئچے گیسل شافٹ فار انٹرنیشنل زوسامینربیٹ (جی آئی زیڈ) جی ایم بی ایچ کے تحت کام کرتے ہیں۔ یہ جرمنی کی وفاقی وزارت برائے اقتصادی تعاون کے منصوبے"نئے مواقعوں کی جانب واپسی" کا حصہ ہیں۔

اتفاق سے سفیکس میں مرکز کے افتتاح کیساتھ ہی کورونا کی وبا نے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ یعنی کہ اُسامہ نے اپنا زیادہ تر وقت فون پر ہی گزارا ۔ مشیر کا کہنا ہے کہ "اگر کوئی شخص بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہو تو ہم بالمشافہ ملاقات بھی کرتے ہیں۔فون پر اس بات کا خطرہ موجود رہتا ہے کہ کوئی بات سمجھنے میں غلطی ہوجائے۔" ملاقات کے دوران احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

فرد کی صلاحیتوں کو پہچاننا

اُسامہ ہر اُس شخص کو یاد رکھتے ہیں جن کو اُنہوں نے مشاورت فراہم کی ہوتی ہے۔ خاص طور پر ایک نوجوان کسی طرح اِن کی یادوں میں پھنس کر رہ گیا۔ وہ نوجوان کئی سالوں سے تیونس میں بطور صنعتی ویلڈر کام کررہا تھا لیکن وہ جرمنی جانا چاہتا تھا کیونکہ اِسے اپنے لیے وہاں مواقع نظرآرہے تھے۔ اگرچہ اُس نے کسی قسم کی تربیت بھی حاصل نہیں کی تھی تو اس کے پاس جرمنی میں نوکری کے مواقع بالکل بھی نہیں تھے۔اُسامہ نے اُس کو یہ چیز سمجھائی بھی تھی۔

اُسامہ نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے باوجود"وہ بہت مایوس تھااور خود کو بالکل تباہ ہوتا ہوا محسوس کرتا تھا۔میرا یہ تاثر تھا کہ وہ پہلے ہی انسانی اسمگلروں کے چنگل میں پھنس چکا تھا۔جب میں نےاُس سے یہ سنا تو کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں:'اگر وہاں کام نہ بنا تو پھر میں کسی اور جگہ کوشش کروں گا۔'"

اُسامہ کہتے ہیں کہ اُنہیں اپنے ہم منصب پر کبھی زیادہ تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ وہ کبھی ایسا نہیں کہیں گے" تم ناکام ہوجاؤ گے،کشتی میں نہیں بیٹھنا!" اس کے بجائے وہ یہ کوشش کرتے ہیں "یہ شخص کیا حاصل کرسکتا ہے اور پھر وہ اس پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔" اُسامہ مشیر سے بڑھ کر ہیں۔"میں ہمیشہ انسان کو اُن کی تمام ترصلاحیتوں اور خدشات کے ساتھ دیکھتا ہوں۔" یہی وجہ ہے کہ مشاورت میں وقت لگ سکتا ہے۔

"کبھی کبھار لوگوں کو  اپنے خیالات کو سمت دینے کیلیے امن اورسکون کی ضرورت ہوتی ہے تو اُنہیں یہ کرنے دیں۔ جب اُنہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ اپنی ذات کیلیے اُن کےمنصوبےکام نہیں کررہے۔اس وقت میں گفتگو کا رخ  تیونس میں موجود متبادل مواقعوں کی جانب موڑسکتا ہوں۔"

مخصوص منصوبوں کی تشکیل

اسی طرح انہوں نے نوجوان صنعتی ویلڈر کواس پرراغب کیا اور  اُنہیں تیونس کے پیشہ وارانہ تربیتی ادارے (ایجنسی تیونسی دی لا فارمیشن پروفیشنل – اے ٹی ایف پی) بھجوایا، جو کہ سی ٹی اے سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہی تھا۔ نوجوان وہاں سے تین سال کے اندر پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔"میرے لیے سب سے اہم چیز یہ تھی کہ لوگ اپنے مستقبل اور زندگی کے حوالے سے واضح سوچ کے ساتھ میرے دفتر سے نکلیں۔ ایک بھرپور زندگی جس میں وہ معاشرے کو کچھ لوٹا سکیں اور اس سے تعلق کو محسوس کریں۔"

اُسامہ منستیر کی خواتین کا حوصلہ بڑھانے میں کامیاب رہےکہ وہ ہجرت کے بجائے جی آئی زیڈ کے ساتھی اداروں میں سے کسی ایک میں اپنا اندراج کرائیں۔ بیروزگاری سے پریشان تجربہ کارفنانس اور ایڈمنسٹریشن منیجر اس سے نکلنے کیلیے راہ کی تلاش میں تھی۔اُسامہ نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ میری "فون پر مشاورت 20 منٹ تک جاری رہی۔خاتون بہت پڑھی لکھی تھی اور اُن کی گفتگو بہت رواں اور مؤثر تھی۔اس کے فوری بعد انہوں نے مجھے پیغام بھیجا اور شکریہ ادا کیا۔میں نجات دہندہ نہیں ہوا،لیکن میں ہجرت کے متعلق لوگوں کی سوچ تبدیل کرسکتا ہوں اور اُنہیں متبادل دکھا سکتاہوں۔"

تاوقتیکہ: 04/2021

میرے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ لوگ میرے دفتر سے اپنی زندگی اور مستقبل کے حوالے سے واضح سوچ لے کرنکلیں۔
اُسامہ

ملکوں کے تجربات