Skip to main content
مینیو

کپڑے سینے سے کچھ بڑھ کر: پاکستان میں بطور درزی اپنا کاروبار

عدیلہ کا ماننا ہے کہ خودمختار بننا بہت اہم ہے۔ تربیت نے اُنہیں وہ ہنر دیا جو اس کو حاصل کرنے کیلیے بہت ضروری تھا۔

کپڑے سینے سے کچھ بڑھ کر: پاکستان میں بطور درزی اپنا کاروبار

پی جی ایف آر سی کا شکریہ کہ اس کی بدولت پاکستان میں خواتین درزی بننے کی تربیت حاصل کرسکتی ہیں۔ اس کورس کی شرکا خودمختار کیسے بنتے ہیں یہ بھی سیکھتی ہیں۔

لاہور کے مرکزی علاقے میں قائم ایک رنگین کلاس روم میں 52 سالہ شبنم فیشن کے پیچیدہ خاکے تیار کررہی ہیں ۔ وہ درزی اور فیشن ڈیزائننگ کے کورس کا حصہ ہیں جو انہیں اپنے آبائی علاقے اسلام آباد میں اپنا فیشن ڈیزائننگ سٹوڈیو کھولنے اور گھر سے کام کرنے کے قابل بنائے گا۔

شبنم کی والدہ نے کافی وقت قبل اُنہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ کچھ سیکھیں تاکہ خود کفیل بن سکیں۔ شبنم نے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے 15 سال پہلے سلائی کرنا شروع کی۔ ابتدا میں وہ اپنے دوست احباب اور گھر والوں کے کپڑے سیتی تھیں۔ وہ فیشن ڈیزائننگ پڑھنا چاہتی تھیں لیکن فیشن ڈیزائننگ کے کورس یا تو بہت مہنگے تھے یا پھر گھر سے بہت دور ہوتے تھے۔ اسی دوران اُن سے کپڑے سلوانے والی ایک صارف نے اُنہیں درزی اور فیشن ڈیزائننگ کے کورس کے بارے میں بتایا۔ یہ کورس پاکستانی جرمن فیسلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) اپنے شراکت دار ادارے پنجاب سکل ڈیولپمنٹ (پی ایس ڈی ایف) کیساتھ مل کر کراتا ہے۔ شبنم کا کہنا ہے کہ یہ اُن کے لیے بہترین موقع تھا کہ فیشن ڈیزائننگ کے حوالے سے سیکھنا اور اپنے سلائی کے کاروبار کو ایک نئی جہت پر لیجانا، تو میں نے پی جی ایف آر سی سے رابطہ کیا اور کورس میں داخلہ لے لیا۔

مارکیٹ میں ایک خلا: نتاشہ پلس سائز(زیادہ وزن والی) خواتین کیلیے کپڑے ڈیزائن اور تیار کرنا چاہتی ہیں۔

درزی بننا: ایک ماہ کی نظریاتی اور عملی تربیت

ایک ماہ کا کورس لاہور کے سٹیپ انسٹیٹیوٹ آف آرٹ،ڈیزائن اینڈ منیجمنٹ (آئی اے ڈی ایم) میں منعقد کیا گیا اور یہ واپس لوٹنے والوں اور مقامی افراد دونوں کیلیے تھا، ساتھ ہی معاشرے کے محروم طبقات کیلیے بھی۔ اس کورس کو فیشن انڈسٹری کے ماہرین کی جانب سے کرایا جاتا ہے جوکہ نظریاتی تعلیم اور عملی تربیت دونوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں شرکا فیشن کے رجحانات، ڈیزائن اور اُن کی سلائی کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بزنس ڈیولپمنٹ یعنی کاروباری ترقی اور نیا کاروبار کیسے شروع کریں کہ بارے میں سیکھتے ہیں۔

شبنم اپنے سلائی کے کاروبار کو ایک نئی سطح پر لیجانا چاہتی ہیں۔

کورس کے جو شرکا علاقے کہ باہر سے آتے ہیں اُن کیلیے پی جی ایف آر سی کی انتظامیہ رہائش کا بھی انتظام کرتی ہے۔ کورس کے اختتام پر تمام شرکا کو اسناد اور سامان فراہم کیا جاتا تاکہ وہ شروعات کرسکیں۔ اس سامان میں سلائی مشین، ڈیزائن اور کٹنگ کے اوزار شامل تھے۔ شرکا کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ کاروبار کی بڑھوتری کیلیے سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ کاروبار کی شروعات اور کھاتوں کی بنیادی معلومات بھی کورس کا حصہ ہیں۔

مارکیٹ میں خلا کی تلاش اور پھر اُس کو پُرکرنا

شبنم کا کہنا ہے کہ ’اساتذہ انتہائی مددگار اور روٹین سے ہٹ کر ذاتی مدد اور مشورے فراہم کرنے والے تھے۔ وہ جانتی ہیں کہ اُنہوں نے کہاں جانا ہے: میں اسلام آباد میں اپنا ذاتی فیشن ڈیزائننگ کا سٹوڈیو کھولنا چاہتی ہوں اور مقامی خواتین کی تربیت کرنا چاہتی ہوں تاکہ وہ مستحکم آمدنی حاصل کرسکیں۔‘

ڈیزائن ( خاکوں) کی تیاری میں نقاشی ایک اہم مرحلہ ہے۔

لیکچرز ایک بڑے ہال میں منعقد کیے جاتے ہیں اور شرکا اساتذہ کی جانب سے سفید بورڈ پر دی گئی ہدایات پر اپنی بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ کورس کی ایک شریک 37 سالہ نتاشہ انتہائی دلجمعی کیساتھ نوٹس لے رہی تھیں اُن کا تعلق لاہور سے ہے، نتاشہ نے اپنے مالی حالات کی وجہ سے کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ فیشن ڈیزائنر کے طور پر کام کریں گی۔ ایک حادثے کے بعد دواؤں کی وجہ سے اُن کا وزن کافی حد تک بڑھ گیا تھا اور اُنہیں اپنے لیے کپڑوں کی تلاش میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے پلس سائز (زیادہ وزن والی) خواتین کیلیے کپڑے تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

مارکیٹ میں اس چیز کا خلا(مانگ) دیکھ کر ایک واقف کار نے اُنہیں درزی کے کورس کے بارے میں بتایا۔ نتاشہ بتاتی ہیں کہ ’کورس میں ڈیزائن کی تیاری سے لیکر سلائی تک تمام چیزوں کا احاطہ کیا گیا۔ میں اب اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتی ہوں اور پلس سائز ڈیزائن کی ماہر بننا چاہتی ہوں۔ بنیادی مہارت اور تعلیم کیلیے یہ کورس بالکل ٹھیک ہے جہاں میں سب سیکھ سکھتی ہوں۔‘

شرکا ایک ساتھ مل کر اہم بنیادی نکات سیکھتے ہیں۔

نئی مہارت کیساتھ خودمختاری کی جانب

سلائی کے تربیتی مرکز کے درمیان 35 سالہ عدیلہ بیٹھ کر احتیاط کے ساتھ سلائی مشین میں دھاگا ڈال رہی ہیں۔ عدیلہ کا تعلق لاہور سے ہے، انہوں نے معاشرے کے رواج کے باوجود جلد شادی نہیں کی۔ وہ کام کرنا اور اپنی مدد کرنا خود چاہتی ہیں۔ عدیلہ جو ہمیشہ سے ایک کاروباری شخصیت تھیں انہوں نے بغیر کڑاہی والے کپڑے آن لائن بیچنا شروع کردیے۔ اُن کی مصنوعات کو خوب پذیرائی ملی اور صارفین نے اُن سے کڑاہی والے کپڑے بھی مانگنے شروع کردیے۔ کیونکہ وہ خود کڑاہی نہیں کرسکتی تھیں تو اُنہیں مقامی درزیوں سے سلائی کروانا پڑتی تھی۔ تاہم انہوں نے جلد ہی یہ ہنر سیکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ یہ کام خود کرسکیں۔ عدیلہ کو فیس بک کے ذریعے کورس کا پتہ چلا۔ تو انہوں نے کاروبار کو وسعت دینے اور کمائی بڑھانے کیلیے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔

عدیلہ کہتی ہیں کہ ’میں ہمیشہ سے خومختار اور خودانحصار بننا چاہتی اور اپنی راہ پر چلنا چاہتی تھی۔ اس کورس نے نہ صرف مجھے ضروری ہنر سیکھنے کا موقع دیا بلکہ اپنے خوابوں کی تعبیر کیلیے مجھے اعتماد بھی فراہم کیا۔‘

<06/2023 تاوقتیکہ

 

میں  اپنے فیشن ڈیزائن سٹودیو میں مقامی خواتین کو تربیت اور ملازمت فراہم کرنا چاہتی ہوں
شبنم

ملکوں کے تجربات