Skip to main content
مینیو

فاسٹ فوڈ کے ساتھ کامیاب

وقاص حسین پاکستان میں اپنی زندگی بنانے کے قابل ہونے پر خوش ہیں۔

فاسٹ فوڈ کے ساتھ کامیاب

میرا نام وقاص حسین ہے اور میری عمر 26 سال ہے۔ میں پاکستان کے صوبے پنجاب کے ایک چھوٹے سے علاقے بتراں والی سے ہوں۔جب میں نوعمر میں تھا تو اپنی والدہ اور4 بہنوں کے ساتھ رہتا تھا۔ میں اسکول جاتا اور کھیتی باڑی میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتا ۔ میرا بڑا بھائی کام کیلیے یونان چلا گیا جہاں سے وہ ہمیں پیسے بھیجتا تھا۔  میں 2013 میں ترکی چلا گیا۔ جہاں میں نے مچھلی مارکیٹ میں کام کے ساتھ ساتھ ایک سال تک مختلف نوکریوں میں خود کو گِھسا اور پھر میں بھائی کے پاس یونان چلا گیا۔  کیونکہ میں حقیقی نقطہ نظر چاہتا تھا تو میں 2015 میں جرمنی چلا گیا۔ 

جہاں مجھے ایک ریستوران میں اور اخبار ڈالنےکا کام ملا۔ اس کے بعد پاکستان میں میری والدہ بیمار پڑ گئیں تومیں نے 2019 میں گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ خوش قسمتی سے میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ میں واپسی اور معاشرے سے جڑنے کیلیے مدد لے سکتا ہوں۔ اس کے بعد میں جرمنی میں واپسی کے مشاورتی مرکز کا چکر لگایا جہاں انہوں نے میرا رابطہ لاہور میں پاکستانی  - جرمن سینٹر فیسلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی ) سے کرایا۔
 

نوجوان مالک اپنے ریستوران کے کاؤنٹر کے پیچھے۔

پاکستان واپس آنے کے بعد میں اپنے علاقے میں ریسٹورنٹ یا اسنوکر کلب کھولنا چاہتا تھا۔ میں نے دونوں خیالات پر پی جی ایف آر سی میں اپنے مشیر کے ساتھ بات کی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنا تجربہ استعمال کروں اور ایک ریستوران کھولوں ۔ میں نے مشاورتی ٹیم کے ساتھ مل کر امکانات پر کام کیا آیا میرے منصوبے میں کامیابی کے کوئی امکانات ہیں بھی۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے میری واپسی کا انتظام کیا اور میں نے آر ای اے جی / جی اے آر پی پروگرام (ری انٹی گریشن اینڈ امیگریشن پروگرام فار ازائلم سیکرز اِن جرمنی/ گورنمنٹ اسسٹڈ ریپیٹریشن پروگرام) کے ذریعے مالی مدد حاصل کی اس کے ساتھ ساتھ ای آر آر آئی این پروگرام کے ذریعے بھی جو کہ نئے کاروباروں کی مدد کرتا ہے۔ میں 2019 دسمبر میں پاکستان واپس آگیا۔
 

ریستوران کا مالک اور کاروباری شخص: وقاص حسین۔

مجھے اپنے ریستوران کے لیے موٹروے کے نزدیک اور برتاں والی کے مرکزی بازار میں ایک دم درست جگہ مل گئی تو میں نے اُس کو کرائے پر لے لیا۔ آئی او ایم کی جانب سے کچھ مالی مدد، کچھ میری بچت، بھائی اور کچھ دوستوں سے قرض لیکر میں نے اُس جگہ کو بنایا۔ میرے فاسٹ فوڈ ریستوران میں برگر اور پیزا سے لیکر شاورمہ تک سب کچھ دستیاب ہے۔ اس وقت میرے پاس 3 ملازمین کام کرتے ہیں۔
 
میرے ارادے بلند تھے لیکن پھر کورونا کی وبا نے آگھیرا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ حکومت نے لاک ڈاؤن لگادیا اور مجھے ریستوران بند کرنا پڑا۔ یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا اوریہ میرے لیے کافی تناؤ اور اضطراب کا باعث بنا۔ مجھے مالی مشکلات تھیں اور میں اپنے ملازمین اور ریستوران کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ تو میں نے تنخواہوں اور کرائے کی ادائیگی جاری رکھی۔

اس دوران میں پی جی ایف آر سی سے بھی رابطے میں رہا اور وہاں کاروباری ترقی کی تربیتی نشست میں حصہ لیا۔ سیمینار بہت فائدہ مند تھا اور میں نے سیکھا کہ اپنے ریستوران کو بحران سے کیسے نکالنا ہے۔ مثال کے طور پر میں نے ڈلیوری سروس متعارف کرائی۔ جس نے میری کمائی کو بڑھایا۔
 

اس دوران میں نے یہ بھی معلوم کیا کہ کونسے کھانوں کی مانگ زیادہ ہے۔ مجھے پتا چلا کہ پیزا بیچنے میں زیادہ فائدہ نہیں تومیں نے اپنا پیزا بنانے والا اوون فروخت کردیا اور پزیریا کے ساتھ اشتراک کرلیا تاکہ اپنے صارفین کی طلب پوری کرسکوں۔ اس وقت میں اپنے ریستوران پر گرل اسٹیشن لگانے کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ پی جی ایف آر سی کی شراکت دار تنظیم موجاز فاؤنڈیشن بھی میری مدد کرے گی تاکہ میں وبا سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی کرسکوں۔

جرمنی چھوڑنے سے قبل میں پاکستان میں اپنے اور گھر والوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان تھا۔ میں اب تک ملنے والی مدد کا شکرگزار ہوں اور اب بھی مجھے پی جی ایف آر سی سے مدد مل رہی ہے۔ میں اب بھی مشیران سے مسلسل رابطے میں ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

تاوقتیکہ 07.2021
 

میں اس مدد کیلیے احسان مند ہوں جو مجھے ملی اور ملتے رہے گی۔
وقاص حسین

ملکوں کے تجربات