اب میں نائیجیریا میں واپس آکر اپنے اہلخانہ کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوں اور مرغیوں کو پال رہا ہوں۔ یہاں رہ کر کچھ بھی حاصل کرنا ممکن ہے۔
کوسووو میں اب میں میرا خود کا ہیئرسیلون ہے۔یہ میرےبچوں کیلیے بھی مستقبل کے مواقعوں کے دروازتے کھولتاہے۔
4لڑکیوں کے والد اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلیےپُرامید ہیں۔جرمن انفارمیشن سینٹر فار مائیگریشن،ٹریننگ اینڈ امپلائمنٹ (ڈی ماک) اس میں خاندان کی مدد کررہا ہے۔
مجھے سربیا میں بیوٹی پارلر میں ایک نیا پیشہ ورانہ گھر مل گیا۔ یہاں تک کا میرا راستہ کافی طویل اور مشکل تھا۔
سیموئل نے یورپ میں بہتر زندگی کی تلاش میں گھانا چھوڑا ۔کئی کٹھن سالوں کے بعد وہ واپس گھانا آچکے ہیں اور اب اپنے آبائی وطن میں نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ خود کے کپڑے کے کارخانے کا منصوبہ تشکیل دیا یہاں تک کہ وہ اُس وقت جرمنی میں ہی تھے۔
میں نے 2بار گھاناسے یورپ کیلیے رخت سفر باندھا اور دونوں بار مجھے کامیابی کے بغیر واپس لوٹنا پڑا۔اب میں اعتماد کے ساتھ اپنے مستقبل کی جانب دیکھ سکتا ہوں اور اس کیلیے میں گھانین-جرمن سینٹر فار جابز،مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن(جی جی سی) کا شکرگزار ہوں۔
اب میں بڑھئی ہوں جوریستوران کا تمام کام کرتا ہے۔اگرچہ اپنے من پسند کام(خوابوں کی نوکری)میں کامیابی کیلیے راستہ کافی طویل تھا۔
سحر علی مصر – جرمن سینٹر فار جابز،مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن (ای جی سی) کی سربراہ ہیں،اس نئے مرکز کا آغاز نومبر کے اوائل میں قاہرہ میں ہوا ہے۔اپنی گفتگو کے دوران اُنہوں نے بتایا کہ یہ مرکز کیا کرتا ہے اور وہ اِس کیلیے اتنی پُرامید کیوں ہیں۔
تیونس میں حکومت کی زیر سرپرستی میں چلنے والے دو ووکیشنل کالجز نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ سیکھاتے ہیں کہ کس طرح کیٹرنگ اور ہوٹل کی صنعت میں اپنا کیریئر(عملی مستقبل) شروع کریں۔
جو لوگ جرمنی میں عملی تربیت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اُن کے پاس اپنے آبائی وطن میں نوکری کی تلاش کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔اسی لیے جو واپس جانے کی خواہشمند ہیں وہ یہاں قینچی، ہیئر ڈرائیر اور بال رنگنے کی مشقیں کررہے ہیں۔